اکبر بیربل کی بیل کے دودھ کی کہانی
بیربل کی ہوشیاری اور ذہانت کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ ان دنوں شہنشاہ اکبر بیربل کی ہوشیاری اور ذہانت پر کافی خوش تھا اور وہ اکثر اس کی تعریف بھی کرتا۔ دربار میں موجود سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ان سب میں سب سے ذہین اور چالاک صرف بیربل ہی ہے۔
بیل کا دودھ
شہنشاہ اکبر نے بیربل کی تعریف کی اور کہا کہ بیربل ہم سب کو ماننا ہوگا کہ تم بہت ہوشیار اور ذہین ہو۔ تمہاری ذہانت کا کوئی جواب نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میری سلطنت میں آپ جیسا ذہین کوئی نہیں ہے۔
دربار میں موجود تمام درباری ایک ساتھ کہنے لگے، ’’ہاں بالکل ٹھیک کہا آپ نے۔" لیکن ان درباریوں میں سے ایک درباری سکھدیو سنگھ (Sukhdev Singh) خاموش بیٹھا تھا۔ شہنشاہ اکبر کی جب نظر اس پر پڑی توشہنشاہ اکبر نے سکھدیو سنگھ (Sukhdev Singh) سے پوچھا، ’’کیا بات ہے، تم خاموش بیٹھے ہو؟ کیا آپ کو یقین نہیں ہے کہ بیربل ہم سب میں سب سے ذہین اور عقلمند ہے؟"
اس نے آگے سے جواب دیتے ہوا کہا کہ’’ہاں، میں نہیں مانتا کہ بیربل ہم سب سے زیادہ عقلمند اور ہوشیار ہے۔‘‘
شہنشاہ اکبر نے سکھدیو سنگھ (Sukhdev Singh) سے کہا کہ’’اچھا، اگر ایسا ہے تو تم بیربل کو کوئی بھی کام دے کر اس کا امتحان لے سکتے ہو۔ پھر دیکھتے ہیں کہ بیربل تمہارے دے کام کوصحیح طریقے سے انجام دینے کے قابل ہے یا نہیں۔ اگربیربل تمہارے دیے کام کو نہ کر سکا تو تم جیت جاؤ گے۔"
ایسے میں درباری نے بیربل کو للکارا اور کہا کہ ٹھیک ہے۔ پھر اس نے بیربل سے کہا کہ ’’ہم سب کے لیے بیلوں کا دودھ لے آؤ۔ اگر تم ایسا کرنے کے قابل ہو تو میں سمجھوں گا کہ تم ہم سب میں سب سے ذہین اور ہوشیار ہے۔"
"بیل کا دودھ!" شہنشاہ اکبر نے حیرانی کے عالم میں کہا ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کوئی بیل کا دودھ کیسے لا سکتا ہے؟
’’اگر بیربل ہوشیار ہے تو وہ بیل کا دودھ ضرور لا سکتا ہے۔ آپ بس بیربل کو حکم دیں۔" سکھدیو سنگھ (Sukhdev Singh) نے شہنشاہ اکبر سے کہا۔
اب ایسی حالت میں شہنشاہ اکبر نے بیربل سے کہا کہ وہ یہ للکار(Challenge) قبول کر لے اور بیربل نے بھی بخوشی اس للکار(Challenge) کو قبول کر لیا۔ بیربل نے شہنشاہ اکبر سے کہا حضور میں کل ہی آپ کے سامنے بیل کا دودھ لے آؤں گا۔
"مجھے نہیں معلوم تم کیا کرو گے۔ لیکن میں یہ جاننے کے لیے بہت بےتاب ہوں۔" شہنشاہ نے کہا۔
اس کے بعد سب دربار سے چلے گئے اور پھر جیسے ہی رات کا وقت ہوا شہنشاہ اکبر اپنے بستر پر سو گیا۔ شہنشاہ اکبر گہری نیند میں تھا کہ اچانک اس کے کانوں میں آوازآئی۔
"کو۔" "کو۔" "کو۔"
یہ آواز اسے پریشان کرنے لگی۔ شہنشاہ اکبر بیدار ہوا اور زور سے پکارا: سپاہی! سپاہی! ایسی رات میں کون آوازیں لگاتا ہے؟ یہ مجھے پریشان کر رہا ہے۔ جاؤ اور اسے خاموش کرو۔" شہنشاہ کے حکم پر سپاہی نے جا کر آواز دینے والے کو چپ کرا دیا۔ کچھ دیر بعد شہنشاہ اکبر دوبارہ سو گیا۔ کچھ دیر بعد وہ آواز پھر اس کے کانوں تک پہنچنے لگی۔
"کو۔" "کو۔" "کو۔"
آواز شہنشاہ اکبر کو پریشان کرنے لگی۔ اس بار وہ غصے سے اٹھا اور پھر چلا کر بولا، ’’سپاہی، یہ کون شور کر رہا ہے؟ تم اسے یہاں لاؤ۔ میں اسے سزا دوں گا۔"
مزید پڑھیے:Everyone Thinks Alike Story of Akbar Birbal in Urdu | سب ایک جیسا سوچتے ہیں (اکبر بیربل کی کہانی)
سپاہی باہر گئے اور رات کو ایک چھوٹی لڑکی کو کپڑے دھوتے دیکھا، جو یہ شور مچا رہی تھی۔ سپاہیوں نے وہ لڑکی شہنشاہ اکبر کے سامنے پیش کی۔ شہنشاہ اکبر نے لڑکی سے پوچھا، ’’کیا بات ہے؟ اس رات اتنا شور کیوں مچاتی ہو؟ کیا تم نہیں جانتی کہ سب کے سونے کا وقت ہو گیا ہے؟ تم نے میری نیند خراب کر دی ہے۔"
"جی شہنشاہ، میں جانتی ہوں۔ میں رات کو کپڑے دھو رہی ہوں کیونکہ میری ماں گھر گئی ہے اور میرے والد نے بچے کو جنم دیا ہے۔ اس لیے مجھے کپڑے دھونے کے لیے فوراً یہاں آنا پڑا۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ کی نیند ٹوٹ گئی۔"
"یہ تم نے کیا کہا؟ تمہارے باپ نے بچے کو جنم دیا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ کیا تم بیوقوف ہو؟" بادشاہ نے لڑکی سے کہا۔
’’معاف کیجئے گا جناب لیکن آپ کی اس سلطنت میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اگر بیل دودھ دے سکتا ہے تو میرا باپ بھی بچہ دے سکتا ہے"۔ لڑکی نےشہنشاہ سے کہا۔
اس لڑکی کی بات سن کر اکبر بادشاہ سمجھ گیا کہ یہ کام صرف بیربل نے کیا ہے۔ اس نے لڑکی کو اپنے گھر واپس جانے کو کہا اور شہنشاہ اپنے بستر پر سوگیا۔
جیسے ہی اگلا دن ہوا، سب لوگ دربار میں پہنچ گئے۔ لیکن بیربل وہاں نہیں تھا، بادشاہ نے سکھدیو سنگھ (Sukhdev Singh) کو بلایا اور پوچھا، "کیا بات ہے، آج تم کچھ کمزور لگ رہے ہو؟ کل رات نیند نہیں آئی؟"
"پچھلی رات جب بھی میں سونے لگا، تو ایک آواز مجھے پریشان کرنے لگتی۔ اس کی وجہ سے میں سو نہیں سکا۔" سکھدیو سنگھ (Sukhdev Singh) نے شہنشاہ اکبر سے کہا۔
شہنشاہ اکبر نےسکھدیو سنگھ (Sukhdev Singh) سے پوچھا کیسی آواز "دراصل وہ آواز بیل کے دودھ دینے کی تھی۔" پھر اس نے تمام درباریوں کو رات کا حال سنایا تو سب سمجھ گئے کہ ان میں سے کوئی بھی بیربل جیسا ہوشیار نہیں ہے۔