Aladdin and The Magic Lamp Story in Urdu | الادین کا چراغ کہانی

آج ہم اُردو میں الادین کا چراغ کہانی فراہم کرنے جا رہے ہیں۔ یہ کہانی یاد رکھنے میں بھی آسان ہے کیونکہ اس کہانی کو آسان اور سادہ الفاظ میں لکھا گیا ہے۔

Aladdin and The Magic Lamp Story in Urdu

الادین کا چراغ کہانی

بہت پہلے افغانستان کے ایک چھوٹے سے قصبے میں قاسم نام کا ایک درزی رہتا تھا۔ وہ بہت غریب تھا اورمشکل سے اپنے خاندان کے ساتھ گزر بسر کرتا تھا۔ اس کے ساتھ اس کی بیوی اور اس کا بیٹا علاء الدین بھی رہتا تھا۔

علاءالدین بچپن سے ہی شرارتی تھا۔ ہر باپ کی طرح علاء کے والد کو بھی یہ فکر رہتی تھی کہ علاء الدین مستقبل میں کیا کرے گا؟ اس کا مستقبل کیسا ہو گا؟

اس وجہ سے علاء کے والد کی خواہش تھی کہ علاء درزی کا کام سیکھے تاکہ مستقبل میں علاء کو پیسوں کے لئے بھٹکنا نہ پڑے۔ لیکن علاء نےکسی کی نہیں سنی۔

اسی دوران علاء الدین کے والد کی خراب صحت کی وجہ سے موت ہو گئی۔ علاء کو سنبھالنے کی ذمہ داری اس کی ماں پر آ گئی۔ اس کی ماں کو بھی علاء کی فکر رہتی تھی لیکن علاء کی ماں نے علاء کو کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی۔ لیکن، پھر بھی علاء کی ماں اس کے بارے میں فکر مند تھی کیونکہ علاء الدین کوئی کام نہیں کرنا چاہتا تھا۔

ایک دن علاء الدین گھر کے باہر گلیوں میں ٹہل رہا تھا کہ ایک اجنبی اس کے پاس آیا، وہ اجنبی جادوگر تھا۔

اجنبی علاء کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ کیا تم درزی قاسم کے بیٹے ہو؟

علاء نے کہا ہاں لیکن میرے والد کا انتقال بہت پہلے ہوچکا ہے۔

اجنبی نے علاء کے ساتھ ہمدردی کی اور کہا، ”او میرے بچے، میں تمہارا چچا ہوں۔ تمہارے والد میرے بڑے بھائی تھے۔ ان کی موت کی خبر سن کر مجھے بہت دکھ ہوا۔

اس کے بعد جادوگر نے کچھ اشرفیاں علاء الدین کو دی اور کہا کہ اب تم گھر جاؤ اور اپنی ماں سے کہو کہ میں کل تمہارے گھر آؤں گا۔ اگلے دن جادوگر علاء کے گھر آیا اور اپنے ساتھ بہت سے تحائف بھی لے آیا۔ جب علاء الدین کی ماں نے اس سے کہا کہ میرے شوہر کا کوئی بھائی نہیں ہے۔ جادوگر نے علاء الدین کی والدہ سے کہا کہ ”میں 40 سال پہلے بغداد کام کے لیے گیا تھا اور میرے بھائی مجھ سے کچھ ناراض تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو انہوں نے میرے بارے میں نہیں بتایا ہوگا۔“ جادوگر کی ایسی باتیں سن کر اب علاء الدین کی ماں کو بھی یقین کرنا پڑا۔

جادوگر نے علاء کی ماں سے پوچھا کہ علاء کیا کر رہا ہے؟

علاء الدین کی ماں نے کہا کہ ”علاء کوئی کام نہیں کرتا اور سارا دن گھومتا رہتا ہے۔

جادوگر نے علاءالدین کی ماں سے کہا، ”آپ فکر نہ کریں، میں اسے کسی کام پر لگا دوں گا۔

پھر یہ کہہ کر وہ علاء کو اپنے ساتھ لے گیا اور وہ علاء کو کام کے بہانے ایک گھنے جنگل میں لے گیا اور ایک غار میں جا کر علاء کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ چنانچہ علاءالدین بالکل گھبرا گیا۔

جادوگر نے علاء الدین سے کہا کہ ”تمہاری غربت کے دن ختم کرنے والا طریقہ اس غار کے اندر ایک انمول خزانہ ہے۔

یہ سن کر علاء الدین خوش ہوا اور جادوگر سے پوچھا کہ ”خزانہ حاصل کرنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟

جادوگر نے کہا ”میں تمہیں اندر کا راستہ دکھاتا ہوں لیکن تمہیں میرے لیے اندر رکھا ہوا چراغ لانا ہو گا۔

علاء الدین فوراً اس پر راضی ہو گیا۔

جادوگر نے منتر پڑھ کر غار کا دروازہ کھولا اور اس کے بعد علاء اس غار کے اندر چلا گیا۔

علاء الدین چراغ کے قریب پہنچ گیا لیکن جیسے ہی علاء نے جادوئی چراغ اٹھایا غار کے دروازے بند ہو گئے۔ چنانچہ علاءالدین گھبرا کر غار کے دروازے پر گیا اور جادوگر سے کہا کہ مجھے یہاں سے نکال دو۔ یہ سب دیکھ کر جادوگر بھی ڈر گیا اور وہاں سے چلا گیا۔

کسی طرح علاء الدین غار سے نکل کر اپنے گھر پہنچا۔ گھر پہنچ کر علاء سوچنے لگا کہ ”اس چراغ میں ایسا کیا ہے جو جادوگر اس کے پیچھے ہے؟

اس نے سوچا کہ شاید یہ چراغ بہت قیمتی ہےاور وہ اسی رات چراغ کو بیچنے کے لیے اسے کپڑے سے صاف کر رہا ہے۔ صاف صاف کرتے کرتے اچانک اس چراغ سے ایک جن نکل آیا اور کہنے لگا ”میرے آقا کا کیا حکم ہے؟

یہ دیکھ کر علاؤالدین گھبرا گیا اور جن سے پوچھا کہ ”تم کون ہو؟“ جن نے جواب دیا کہ ”جس کے پاس یہ چراغ ہوتا ہے میں اس کا غلام بن جاتا ہوں۔

تب سے علاء کی تمام پریشانیاں ختم ہوگئیں۔ اسے جس چیز کی ضرورت ہوتی وہ اس جن سے مانگ لیتا۔ کہا جاتا ہے کہ علاء الدین نے جن کو کبھی غلام نہیں سمجھا۔ بالکل اپنے بھائی کی طرح سمجھتا تھا۔

علاء الدین نے مرنے سے پہلے جن کو ایک آخری حکم دیا کہ چراغ کو ایسی جگہ دفن کرو کہ کوئی اسے تلاش نہ کر سکے۔ جن نے بھی ایسا ہی کیا۔ بعض کا خیال ہے کہ علاء کا چراغ وسطی ایشیا کے پہاڑوں میں دفن ہے۔

مزید پڑھیے:

کسان اور سانپ کی کہانی

کر بھلا ہو بھلا کہانی

ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی کہانی

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی